Cherreads

Chapter 15 - تم میری ہو

Episode.15

باہر برف گر رہی تھی اور اندر لکڑی کے کیبن میں سکون بکھرا ہوا تھا آتش صوفے پر بیٹھا تھا کافی ٹیبل پر ایک گرم چائے کا کپ رکھا تھا اس کی انگلیاں کپ کے ہینڈل کو دھیرے دھیرے گھما رہی تھیں اس کے چہرے پر گہری سوچ کے آثار تھے مہر کیبن کے کونے میں ایک لمبے بلینکٹ میں لپٹی ہوئی تھی آتش کی نظریں اس پر گئی اور بنا کچھ کہے اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا چائے کا کپ اٹھایا اور سیدھا مہر کے ہاتھوں میں رکھ دیا مہر نے کچھ حیران ہو کر آتش کی طرف دیکھا اس کی انگلیاں کپ کے اوپر تھیں اور آتش کی انگلیاں کپ کی دوسری طرف دونوں کے ہاتھ ایک ساتھ تھے

" مجھ سے زیادہ تمہیں ضرورت ہے"

 دونوں کی نظریں ملیں اور وہ لمحہ وہی جم گیا پھر آتش دھیرے سے جھکا اور اس کے گیلے بالوں سے برف ہٹا دی 

" کیا یار کتنی شرارتیں کرتی ہو جتنی شرارتی ہو اتنی بھی بے حساب معصوم بھی ہو"

 مہر نے کپ مضبوطی سے پکڑ لیا آتش نے محسوس کیا اس کے ہاتھ ٹھنڈے ہو رہے تھے ایک دم بنا کچھ کہے اس نے اپنی گرم انگلیاں مہر کے ہاتھوں پر رکھ دیں، اس کے ہاتھوں کی گرماہٹ سیدھا مہر کی روح میں اتر گئی 

" تمہاری یہ سرد انگلیاں صرف مجھے گرم کرنی آتی ہیں"

 آتش دھیرے سے مسکرایا اس کی آواز گہری اور نرم تھی مہر اس کی مسکراہٹ میں کھو گئی بون فائر کی روشنی دونوں کے چہرے روشن کر رہی تھی کیبن کا ماحول کافی سکون بھرا تھا باہر کا ماحول بھی اتنا ہی خوبصورت تھا وہاں کسی بھی چیز کی کمی نہیں تھی اس وقت کمی تھی تو صرف ایک چیز کی 

مہر کی آواز کی،

 لیکن آتش کو اب ضرورت بھی نہیں تھی اس کے بنا بولے بھی وہ سب کچھ سمجھنے لگا تھا مہر نے دھیرے سے کپ اٹھایا اور لمبوں سے لگا لیا آتش اس کی ہر حرکت دیکھ رہا تھا اور پھر اگلے ہی سیکنڈ اس نے ہاتھ بڑھایا اور مہر کے ہاتھ سے وہی کپ لے کر خود بھی اسی جگہ سے پینے لگا مہر نے حیران ہو کر اس کو دیکھا 

" تمہارے بنا میری چائے بھی ادھوری لگتی ہے "

اس کا لہجہ بہکا ہوا تھا اور آنکھوں میں شیطانی چمک تھی مہر پل بھر میں سرخ ہوئی، کیبن کی باہر برف گرتی رہی اور ان دونوں کی محبت کا سفر اب بھی چلتا رہا

☆☆☆

کالج ٹرپ ایک جنگل ریزرٹ پر رکا تھا صبح صبح بس سے اترنے کے بعد اب سب سٹوڈنٹس انجوائے کر رہے تھے ایمل اور مومنہ بھی کافی انجوائے کر رہی تھیں 

" اچھا ہوا جو ہم یہاں آگئے اب تو رافع کو بھی نہیں معلوم کہ تم کہاں گئی ہو، اب بس ٹینشن فری ہو جاؤ اور ڈرنا تو بالکل بھی نہیں ہے چل کرو یار"

مومنہ نے کہا تھا مگر ایمل کو اب بھی خوف تھا اس نے کچھ کہنا چاہا تو مومنہ پھر بول پڑی 

" تمہیں بھی نہ ہر وقت ناول کی طرح کوئی Stalker دکھائی دیتا ہے ریلیکس یار یہاں پر صرف ہم دونوں ہیں "

مومنہ نے مذاق سے کہا ایمل خاموش ہی رہی لیکن اندر ہی اندر ایک عجیب سا خوف تھا جو اسے اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا جیسے کچھ برا ہونے والا ہو ایک آواز تھی جو ہر وقت اس کے ذہن میں گونجتی رہتی تھی

" میں ہر جگہ ہوں ایمل۔۔۔۔ تمہاری ہر جگہ"

 جب شام ہونے لگی تو سبھی سٹوڈنٹس اپنے اپنے کیبن کی طرف بڑھ گئے رات کا اندھیرا دھیرے دھیرے بڑھنے لگا اور جنگل کے آس پاس ہلکی سی سرسراہٹ محسوس ہونے لگی

" آج کا دن کتنا مزیدار تھا نا مجھے تو یقین نہیں ہو رہا کہ ہم سچ میں اتنی دور ٹرپ پر آئے ہیں"

 مومنہ نے ہنستے ہوئے کہا ایمل نے ہلکا سا مسکراتے سر ہلا دیا لیکن اس کا دھیان اب بھی آس پاس کے ماحول پر ہی تھا اسے لگ رہا تھا جیسے کوئی اسے دیکھ رہا ہے جیسے ہی دونوں اپنے کیبن کے پاس پہنچے ایمل کا فون وائبریٹ ہوا 

" ان نون نمبر"

 اس نے فون نہیں اٹھایا بس اسکرین کی طرف دیکھتی رہی 

" کیا ہوا؟"

 مومنہ نے اس سے پوچھا

" کچھ نہیں بس کوئی ان نون نمبر ہے"

 ایمل نے تھوڑا گھبرا کر کہا 

" کوئی رونگ نمبر ہوگا یار دفعہ کرو چھوڑو"

 مومنہ نے آنکھیں گھمائیں جیسے ہی ایمل آگے بڑھی ایک اور میسج آیا 

" اگر زیادہ بھاگ دوڑ کی تو سمجھ لینا جنگل کا راستہ لمبا بھی ہے اور اکیلا بھی"

 ایمل کا گلا سوکھ گیا اس نے آس پاس دیکھا لیکن وہاں کوئی بھی نہیں تھا اندھیرا اور گہرا لگنے لگا تھا اسے یاد آیا کہ اس نے رافع کا نمبر بلاک کر دیا تھا تو پھر یہ کون تھا مومنہ اسے کچھ کہنے لگی تھی کہ پھر سے اس کا فون وائبریٹ ہوا اس بار صرف دو الفاظ تھے 

" ٹرن اراؤنڈ"

 ایمل نے ایک جھٹکے سے پیچھے دیکھا وہاں کوئی بھی نہیں تھا صرف ہوا چل رہی تھی دور جنگل کے پیڑ ہل رہے تھے مومنہ کچھ کہتے ساتھ اندر جا چکی تھے اس نے تیزی سے کیبن کا دروازہ بند کیا اور بیڈ پر گر گئی لیکن تبھی کیبن کی لائٹ ایک سیکنڈ کے لیے جھلملائی اس کے اندر گھبراہٹ سی دوڑ گئی اور پھر اچانک ایک ہاتھ پیچھے سے اس کے منہ پر آیا اور اس کی چیخ اندر ہی دب گئی

☆☆☆

عینی نے کھڑکی سے باہر دیکھا شام ڈھل رہی تھی نارنجی سورج دھیرے دھیرے سمندر کے نیلے پانی میں گم ہو رہا تھا ہلکی سی سردی لیے ہوا چل رہی تھی مگر ایک الجھن تھی جو اس کے اندر بھری ہوئی تھی امان نے اسے پروپوز تو کر دیا تھا اور رشتہ بھی بھیجنے والا تھا مگر کیا وہ سچ میں تیار بھی تھی اس نے اپنی اٹھتی ڈوبتی سوچ سے بچنے کے لیے جیسے ہی موبائل اٹھایا امان کا نام چمک رہا تھا اس کا دل دھڑک اٹھا جیسے کسی نے اس کی چھپی ہوئی سوچ پڑھ لی ہو 

" ہیلو"

 عینی نے دھیمی سی آواز میں کہا

" عینی"

 امان کی آواز ہمیشہ کی طرح گہری اور بھاری تھی 

" تم ٹھیک ہو؟"

عینی نے ایک پل کو سوچا پھر چپ رہی۔۔۔۔۔ کیا وہ سچ میں ٹھیک ہے امان نے اس کی خاموشی محسوس کی 

" اگر تم چاہو تو مجھے اپنے دل کی بات بتا سکتی ہو "

عینی نے ہلکی سی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے کہا 

" میں بس سوچ رہی تھی کچھ"

" اچھا کس بارے میں"

عینی نے کھڑکی سے باہر گرتی شام کو دیکھا جیسے وہ بھی اس کے دل کی طرح دھیرے دھیرے ڈھل رہی ہو

" تم اتنا شیور کیسے ہو ؟"

امان نے چند پل سوچا پھر دھیرے مگر گہری آواز میں کہا 

" تمہاری آنکھوں میں اپنی جگہ دیکھ چکا ہوں بس تمہیں بھی وہ جگہ دکھنے لگے اس کا انتظار کر رہا ہوں"

 عینی نے بے یقینی سے موبائل کو دیکھا اس کا دل بھی جانتا تھا کہ امان جھوٹ نہیں بول رہا 

" اور اگر مجھے دیر لگ گئی تو؟"

عینی نے دھیرے سے پوچھا امان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی جو اس کی آواز میں بھی محسوس ہو رہی تھی 

" تو پھر میں انتظار کر سکتا ہوں"

" لیکن کیوں؟"

عینی نے بے اختیار پوچھا امان ہلکا سا ہنس دیا 

" کیونکہ تمہاری خوشی میرے لیے سب سے ضروری ہے"

 عینی نے آنکھیں بند کر لیں یہ جو احساس تھا امان کی باتوں سے اس کے دل تک پہنچ رہا تھا وہ صرف محبت نہیں تھی عزت تھی یقین تھا اور ایک ایسے رشتے کا وعدہ تھا جو صرف پیار پر نہیں سمجھ اور برابری پر مبنی تھا 

" اگر تم تیار نہیں ہو تو میں انتظار کر سکتا ہوں جب تک تمہیں پورا یقین نہ ہو جب تک تمہارا دل یہ نہ کہے کہ " ہاں " تب تک فیصلہ تمہارا ہوگا "

امان کی آواز اس بار زیادہ گہری تھی عینی کی آنکھوں میں نمی آ گئی کتنی عجیب بات ہے لوگ کہتے ہیں محبت میں سب کچھ جلدی ہوتا ہے مگر جو اصل ہوتا ہے 

وہ جلدی نہیں۔۔۔۔

 ٹھہراتی نہیں۔۔۔۔

 وہ سمجھتی ہے، انتظار کرتی ہے، عینی نے گہری سانس لی پھر دھیرے سے کہا 

" شاید میں بھی تیار ہو رہی ہوں"

" تو بس باقی سب وقت پر چھوڑ دیتے ہیں"

 امان نے مسکرا کر کہا اور اس وقت عینی نے محسوس کیا شادی صرف ایک رشتہ نہیں ہوتا ایک احساس ہوتا ہے جب سمجھ آئے تبھی اسے اپنانا چاہیے

☆☆☆

کیبن میں ہلکی سی لکڑی جلنے کی خوشبو، ٹھنڈی ہوا کا شیشے پر جمنا اور ایک گہرا سکون جو صرف اس جگہ کی خاصیت تھا مگر ایک جگہ تھی جہاں سکون نہیں تھا

 آتش کا دل،

صوفے کے ایک کونے پر مہر اپنی شال میں لپٹی ناک لال کیے آنکھیں بھاری کیے بیٹھی تھی اس کے گیلے بال اس کے گالوں سے چپکے ہوئے تھے آتش نے کچھ ناراضگی سے اس کی طرف دیکھا مگر آج کچھ زیادہ ہو چکا تھا بھلا کیا ضرورت تھی اس طرح بارش میں بھیگنے کی 

" یہ سب صرف تم ہی کر سکتی ہو بارش کے چکر میں اپنی جان تک دے سکتی ہو"

 آتش نے اس کے قریب آتے ہوئے تھوڑا غصے اور سختی سے کہا مہر نے دھیرے سے آنکھیں اٹھائیں جیسے کہہ رہی ہو ہاں کیونکہ مجھے بارش پسند ہے آتش نے اس کی آنکھوں سے اس کا جواب پڑھا پھر اپنا گرم ہاتھ اس کے گال پر رکھا 

" تمہیں اندازہ بھی ہے مہر، کہ تمہاری ایک چھوٹی سی بے پرواہی مجھے کتنا بے چین کر دیتی ہے "

مہر نے اسے ایسے دیکھا جیسے کہہ رہے ہو مجھ سے بہتر بھلا کون جانتا ہے آتش نے اس کے ماتھے پر اپنی انگلیاں رکھ کر اس کا ٹمپریچر چیک کیا بہت ضبط سے بنا کچھ کہے اس نے ٹیبل سے ایک ٹیبلٹ اور چائے کا کپ اٹھا کر اس کی طرف بڑھا دیا

" یہ لو اور چپ چاپ پیو "

آتش نے دھیرے مگر سختی سے کہا مہر نے منہ بناتے دائیں بائیں سر ہلایا آتش کی آنکھوں کا رنگ مزید گہرا ہو گیا 

" اگر تم نے ضد کی، تو تمہیں اپنے طریقے سے ٹھیک کرنا پڑے گا "

آتش نے نرمی سے کہتے اس کی آنکھوں میں دیکھا مہر کے پلکوں کی جھلملاہٹ نے اس کا سارا دھیان بس مہر کے چہرے پر رکھ دیا اس کے چہرے کی معصومیت، گیلے بالوں سے ٹپکتی پانی کی بوندیں اور سرخ گال اس نے بنا ایک سیکنڈ ضائع کیے چائے کا کپ مہر کے ہونٹوں سے لگا دیا مہر نے جیسے ہی پیا ایک سکون سا اس کے چہرے پر پھیل گیا آتش نے مسکراہٹ دبا کر اس کو دیکھا اب وہ خود چائے پی رہی تھی آتش نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما اور اسے رب (rub) کرنے لگا 

" تم کتنی عجیب ہو مہر، ایک پل میں جان لے لیتی ہو اور دوسرے ہی پل میں جان بن بھی جاتی ہو "

مہر نے نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تھا، کیبن کے اندر صرف فائر پلیس کی گرم آنچ آتش کی گرم سانسیں اور مہر کی بے چینی کا ساز بج رہا تھا باہر پہاڑوں پر برف اب بھی گر رہی تھی اور اندر کسی کا دل پگھل رہا تھا

☆☆☆

وہ رات گہری اور خوف سے بھری ہوئی تھی ہوا تیز چل رہی تھی دور کہیں جنگل میں جنگلی جانوروں کی خطرناک آوازیں گونج رہی تھیں ایمل کی آنکھوں پر پٹی بندھی تھی اس کا دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی سینے سے نکل کر باہر آ جائے گا اس کے ہاتھ رسیوں سے جکڑے ہوئے تھے اس کے آس پاس عجیب سی آوازیں تھیں، غمگین، بھاری بھاری سی،

" چھوڑو مجھے، یہ۔۔۔۔۔۔ یہ سب کیوں کر رہے ہو ؟"

ایمل نے چیخنے کی کوشش کی تھی اس کے سامنے جو بھی تھا بے رحمی سے ہنسا تھا 

" تم جیسی لڑکیوں کو چھوڑنے کے لیے نہیں اٹھاتے جان من"

 ایک گندی سی آواز اور ساتھ ہی ہنسی کے ساتھ ایک آدمی نے اس کی طرف بڑھنے کی کوشش کی تھی ایمل کی آنکھیں پانی سے بھرنے لگیں 

" دور۔۔۔۔۔دور رہو مجھ سے"

 وہ بے بسی سے چلائی تھی اس نے زور سے ہاتھ جھٹکے مگر بے سود وہ ہل بھی نہیں پا رہی تھی اس نے اللہ سے بس ایک ہی مدد مانگی کوئی اسے بچا لے کوئی بھی اس سے پہلے کہ وہ آدمی اس کو چھوتا ایک ٹھنڈی مار دینے والی آواز گونجی تھی 

" اگر کسی نے بھی اسے چھونے کی کوشش کی تو ہاتھ کا ٹنے کا دکھ بھی محسوس نہیں کر پاؤ گے میں صرف جان نہیں لیتا لوگوں سے ان کا وجود بھی چھین لیتا ہوں"

ایمل ساکت ہوئی، یہ آواز تو اور پھر کسی کے چیخنے کی آواز آئی تھی،کسی کے گرنے کی، ایمل کا دل رکا اس نے بس کچھ آوازیں سنی تھیں، توڑے جاتے ہاتھوں کی گرتی ہوئی کرسیوں کی چیختے ہوئے لوگوں کی اور پھر ہر طرف خاموشی چھا گئی ایک ٹھنڈا ہاتھ اس کی پٹی کو کھینچ گیا تیز روشنی سے اس کی آنکھیں چندھیا گئیں لیکن جو شخص اس کے سامنے کھڑا تھا وہ آج بھی اس کی ہر روح کی تار ہلا رہا تھا، رافع شاہ، بلیک شرٹ جس کے آگے کے دو بٹن کھلے آستین ہلکی سی رولڈ اپ جس سے اس کے مضبوط ہاتھ صاف نظر آ رہے تھے اس کے دائیں ہاتھ پر پرانی چوٹ کا ایک نشان بھی تھا چہرے پر پسینہ اور دھول کا ہلکا سا اثر تھا مگر غصہ اور بے چینی نہیں تھی شاید ایمل کو دیکھنے کے بعد غائب ہو گئی تھی ایمل نے اس کو غور سے دیکھا، وہ ایسے کھڑا تھا جیسے یہ صرف عام بات ہو غنڈے اب فرش پر ڈھیر ہوئے پڑے تھے اس نے ایک گہری نظر ایمل پر ڈالی پھر اس کا چہرہ ایمل کے پاس آیا اور پھر ایک سرد اور ٹھہراو بھری آواز گونجی 

" کوئی گلہ یا شکایت ہو تو کہہ سکتی ہو"

 اس نے لاپرواہی سے کہا 

" مجھے سننے کی عادت نہیں مگر تمہاری یہ حالت میں نے نہیں بنائی"

 اس کے الفاظ قطعی نرم نہیں تھے مگر ایک عجیب سی سختی تھی جو ایمل کے دل کی دھڑکن تیز کر گئی ایمل نے دھیرے سے اپنے سوکھے ہوئے لب ہلائے، آواز دکھانے سے زیادہ محسوس ہوئی

"ت۔۔۔۔۔ تمہیں کیسے پتہ۔۔۔۔ چلا کہ ۔۔۔۔۔میں یہاں ہوں۔۔۔۔ مطلب تم ۔۔۔۔۔۔۔"

اس سے کچھ بولا نہیں جا رہا تھا رافع ایک قدم اس کی طرف بڑھا پھر آہستہ سے جھک کر اس کی آنکھوں میں دیکھا جیسے اس کی روح تک پہنچ رہا ہو 

" تم چھپ سکتی ہو ایمی۔۔۔۔ لیکن مجھ سے نہیں"

 اس کی آواز ہمیشہ کی طرح ٹھہری ہوئی تھی ایمل نے گھبرا کر اس کو دیکھا 

" مجھے کیسے پتہ چلا؟"

 اس نے ایمل کا سوال دہرایا 

" تم جہاں بھی جاؤ گی میری نظر ہمیشہ تم پر ہوگی چاہے اندھیرا ہو یا روشنی تمہاری پرچھائی بھی اگر بھٹکے گی تو اسے بھی میں ہی سنبھالوں گا"

ایمل کچھ بول نہیں سکی یہ بندہ صرف کہتا نہیں تھا یہ واقعی ہر جگہ ہوتا تھا وہ آگے ہوا اور اس کے دونوں ہاتھ کھولنے لگا

" میری عادت ہے چیزیں پروٹیکٹ کرنے کی اور جو چیز ایک دفعہ میری ہو جائے اسے چھونے کی بھی کسی کی اوقات نہیں"

 اس کی آواز ایمل کے کان کے بالکل قریب گونج رہی تھی 

" مگر تم نے مجھے کیسے ڈھونڈا؟"

 وہ سیدھا ہوا پھر اس کے ہاتھ پکڑ کر کھڑا کیا 

اپنے بے حد قریب، 

" تمہارے آس پاس میرے کچھ لوگ ہیں "

رافع کی مسکراہٹ گہری ہوئی ایمل حیران ہوئی 

" انہوں نے مجھے سگنل دیا اور دیکھو میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر تمہارے پاس آگیا"

 پھر وہ اس کے قریب جھکا 

" سمجھ آیا اب، میں ہر جگہ ہوں ایمل تمہاری ہر جگہ "

روشنی کم تھی مگر جتنی بھی تھی وہ سیدھا ایمل کے معصوم چہرے پر پڑ رہی تھی بڑی بڑی آنکھیں جو ہر دفعہ رافع کا صبر آزماتی تھیں ہلکا سا گیلا پن جو اس کے معصوم چہرے کو اور بھی خوبصورت بنا رہا تھا اس کے ریشمی بال کندھوں پر بکھرے ہوئے تھے رافع کا غصہ اس کے مسکراہٹ سب غائب ہو گئے اس نے اپنی انگلیاں مٹھی میں بند کیں ایمل نے ہلکی سی آنکھیں جھپکائیں جسے یقین کرنا چاہ رہی ہو کہ جو شخص ہر وقت اپنا دھونس جماتا تھا وہ سچ میں صرف اس کے لیے سب کچھ چھوڑ کر یہاں آگیا تھا اس کا گلا سوکھنے لگا 

" رافع۔۔۔۔۔"

 مگر رافع نے اس کی بات کاٹ دی 

" تم مجھ سے دور بھاگ رہی تھی کیونکہ تمہیں لگتا تھا میں ایک خطرناک آدمی ہوں اب بتاؤ جو تمہارے لیے واقعی خطرناک تھے ان سے تمہیں کس نے بچایا"

 ایمل بالکل چپ ہو گئی اسے توقع نہیں تھی کہ وہ یہ سب کہہ دے گا، جیسے اس کی ساری دنیا ہل گئی ہو رافع نے دھیرے سے اس کا گال پر ہاتھ رکھا 

" تم میری ہو ایمی، تمہیں بس یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے"

 مگر اگلے ہی سیکنڈ ایمل بری طرح روتے ہوئے اس کے سینے سے لگ گئی ضرورت نہیں تھی کچھ بھی کہنے کی، وہ بس اتنا رو رہی تھی کہ شاید ہی زندگی میں اتنا روئی ہو رافع ایک پل کے لیے جیسے جم سا گیا تھا یہ وہ پل تھا جس کا وہ انتظار کر رہا تھا اس نے اسے ایک لمحے کے لیے بھی خود سے دور نہیں کیا بلکہ اپنے ہاتھ اس کی کمر پر رکھے اسے اور قریب کیا

" بس اب کوئی تمہیں ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا "

وہ بول نہیں رہا تھا وہ وعدہ کر رہا تھا ایمل کا سر اس کے سینے سے لگا تھا 

" اگر تم۔۔۔۔۔۔"

" میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوتا ہوں ایمی، تمہیں بس دیکھنے کی ضرورت ہے"

رافع نے ایک قدم پیچھے لیا 

" نہیں میں بس۔۔۔۔"

 ایمل نے آنسو صاف کیے اس کا گلا رندھ گیا تھا 

" ڈرنا بند کرو ایمی، کیونکہ میں تمہارا ڈر نہیں تمہارا اصل سکون ہوں"

 وہ اس کے لبوں کے قریب جھکا سرگوشیاں کر رہا تھا ایمل کا دماغ گھومنے لگا اس کا دل کہہ رہا تھا ہاں مگر اس کا دماغ رافع پیچھے ہٹا اور اس کی طرف دیکھا 

" اب مجھے بس ایک ہی چیز چاہیے "

ایمل نے دھیرے سے اس کی طرف دیکھا 

" کیا؟"

" نکاح"

 ایمل نے شاکڈ ہو کر اس کو دیکھا 

" کیا!"

رافع ایک دم سنجیدہ ہوا 

" یہاں سے تم یا میرے ساتھ چلو گی یا کسی اور کی زندگی کا حصہ بنو گی چوئیس تمہاری ہے لیکن سن لو ایمل"

وہ رکا پھر اس کے کلائی پکڑ لی 

" اگر تم نے مجھے چھوڑا تو یاد رکھنا میں تمہیں واپس لینے آؤں گا۔۔۔۔ہر دفعہ ،ہر جگہ"

ایمل کا دل بند ہونے لگا یہ سب کیا ہو رہا تھا رافع نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے 

" اگر تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں ہے تو ایک دفعہ میری آنکھوں میں دیکھو اور بتاؤ جو میں کہہ رہا ہوں کیا وہ جھوٹ ہے"

 ایمل کے پاس کوئی جواب نہیں تھا رافع کی گرفت سخت ہوئی

" اگر مجھ سے شادی نہیں کرو گی تو دوبارہ مجھے بولنے کی کوشش بھی مت کرنا کیونکہ میں تمہیں جینے نہیں دوں گا "

رافع کی آنکھوں میں جنون بھرا تھا 

" بولو ہاں یا نہیں"

 ایمل نے اس کی آنکھوں میں دیکھا کیا وہ اس انسان کو نہ کہہ سکتی تھی ؟کبھی نہیں! ایک سیکنڈ۔۔۔ دو سیکنڈ۔۔۔۔

 اور پھر ایمل نے اپنا سر جھکا دیا 

رافع شاہ جیت گیا تھا۔

☆☆☆

ایک خاموش رات

 ہلکی ٹھنڈی ہوا 

جو ندی کی لہروں سے ٹکرا رہی تھی

 لکڑی کا پل جو پانی کے اوپر تھوڑا ہلکا سا ہچکولے لے رہا تھا جگنو، جو رات کی سیاہی میں چمک رہے تھے جسے چاند کی روشنی کو بڑھاوا دے رہے ہوں ، ستاروں سے بھرا آسمان جو آج صرف ان دونوں کے لیے زیادہ روشن تھا 

سب کچھ ایک خواب جیسا

 مہر کالی شیفون کا دوپٹہ اپنے کندھوں پر ایڈجسٹ کر رہی تھی اس کے کھلے بال ہوا میں لہرا رہے تھے اس کا دل عجیب سی حالت میں تھا جیسے اس کے دل نے کچھ محسوس کیا ہو اس نے آنکھیں بند کر لیں اور ایک لمبی سانس لی، جیسے اس خوبصورت لمحہ کو محسوس کر رہی ہوں تبھی پیچھے سے آتش نے اس کے دونوں طرف کی ریلنگ پکڑ لی، مہر درمیان میں پھس چکی تھی کوئی راستہ نہیں تھا جہاں سے وہ نکل سکتی اس کی سانسیں رکیں، ہلکی سی مسکراہٹ ہلکی سی بے چینی لیکن اندر کہیں عجیب سا سکون جو وہ محسوس کر رہی تھی آتش دھیرے سے اور قریب آیا اس کا سایہ مہر کے سائے سے مل گیا مہر نے گھبرا کر اس کو دیکھا آتش کا نزدیک آنا اسے بے چین کر رہا تھا آتش نے مہر کی کمر کے پاس ہاتھ رکھا اور اسے دھیرے سے اپنی طرف کھینچ لیا اس کا چہرہ اب اس کے بالکل سامنے تھا اتنا نزدیک کہ مہر کو اس کی سانس اپنے ہونٹوں پر محسوس ہونے لگی آتش نے مہر کے گال پر ہاتھ رکھا اس کا لمس اتنا ہلکا تھا جیسے اسے ہوا نے چھوا ہو مہر نے آہستہ سے آنکھیں کھولی اور سیدھا آتش کی گہری بھوری آنکھوں میں دیکھا

" بہت دفعہ سوچا تھا تم سے دور ہو جاؤ، لیکن ہر دفعہ تمہاری ایک مسکراہٹ نے مجھے واپس کھینچ لیا تمہیں نہیں پتہ مہر، تم میری عادت نہیں ضرورت بن چکی ہو "

مہر کے گالوں پر لالی ابھرنے لگی اس نے مہر کی ٹھوڑی اٹھائی اور اس کے چہر کے قریب آیا دوسرے ہاتھ سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سینے پر رکھ دیا مہر کا دل اس کی ہتھیلی میں دھڑکنے لگا تبھی اس نے آنکھیں بند کر لیں اس کا دل اب اسے چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھ رہا تھا آتش نے نرمی سے اس کے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے مہر نے اپنے ماتھے پر اس کی گرم سانسیں محسوس کی اس کے گال دہک اٹھے

" تم میری زندگی کا وہ حصہ ہو مہر جسے میں چھوڑ کے بھی جی نہیں سکتا اور پاس رکھ کے بھی کبھی بھر نہیں سکتا"

مہر نے دھیرے سے اس کی آنکھوں میں دیکھا، جگنو اس کی آنکھوں میں بھی چمکنے لگے تھے آتش نے اپنے سینے پر دھرا اس کا ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگایا 

" تم میری ہو مہر اور یہ بات مجھے دنیا سے کہنے کی ضرورت نہیں تمہاری ایک مسکراہٹ، ایک نظر ہی کافی ہے مجھے یہ محسوس کروانے کے لیے "

اس نے ایک سیکنڈ کے لیے مہر کی طرف دیکھا جیسے دیکھ رہا ہو کہ وہ کیا کہنا چاہ رہی ہے مہر نے مسکراہٹ دبا کر نظریں جھکا لی تھی اور وہ ہنس دیا تھا

☆☆☆

کمرہ سنسان تھا دھیمی روشنی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اریس ایک کرسی پر بیٹھا تھا اس کے ہاتھ میں وہسکی کا ایک خالی گلاس تھا جیسے پکڑنا اس کی عادت ہو اس کی انگلیاں گلاس پر رقص کر رہی تھیں ایک بے چینی سی تھی اس کی آنکھوں میں، گرمی سی تھی جو صرف ایک شکاری میں ہوتی ہیں جو شکار کرنے سے پہلے مزید بھوکا ہو جائے

" کیا سوچا تھا اور کیا ہونے جا رہا ہے مہر!"

 اس کی آواز بھاری تھی مسکراہٹ گہری تھی وہ اٹھا پھر دھیرے سے آستین اوپر چڑھانے لگا مگر اگلے ہی سیکنڈ نیچے کر دیا

 کچھ عادتیں آدمیوں کی جان نہیں چھوڑتیں

" تعمیر جب خود سے گرنے لگے تو بس ایک دھکا کافی ہوتا ہے "

اس کے موبائل اسکرین پر کافی دیر پہلے آنے والا میسج ابھی بھی جگمگا رہا تھا

" The pawn is in position "

ایک نظر دیکھنے کے بعد اس نے موبائل الٹا کر دیا تھا اسے اب کچھ بھی دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی 

" شہزادی ۔۔۔۔ وقت تمہارے حق میں نہیں ہے"

 اس کے لبوں کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی تھی

جاری ہے۔۔۔۔۔۔

"Har lafz mein ek jazba hai… aapka feedback mere liye taqat hai. Novel ko collection mein zaroor save karein agar aap bhi Atish Zayan aur Meher ki kahani mein kho gaye hain."

Episode ka aaghaz hota hai aik snowfall wali raat se, jahan Meher aur Atish ek cabin mein hain. Bahar barf gir rahi hai, aur andar sukoon bhara mahaul hai. Atish couch par betha hai, gehri soch mein dooba hua, jabke Meher aik blanket mein lipti chhup chaap kone mein hai. Atish bina kuch kahe usay chai ka cup pakra deta hai, aur unke haathon ka touch aik khas lamha ban jata hai. Atish Meher ke geele baalon se barf hata kar kehta hai ke woh kitni masoom aur shararti hai. Uske baad uske thande haathon par apne haath rakh deta hai, kehkar ke:

"Tumhari yeh sard ungliyan sirf mujhe garam karni aati hain."

Dono ke darmiyan aik naram si khamoshi mein pyar ka izhaar hota hai.

Isi lamhe mein Atish Meher ke haath se wahi cup le kar usi jagah se peeta hai jahan se Meher ne piya hota hai, aur kehta hai:

"Tumhare bina meri chai bhi adhoori lagti hai."

Doosri taraf, college trip jungle ke resort par hai. Emal aur Momina trip enjoy kar rahe hain lekin Emal ko andar hi andar kisi stalker ka dar hai. Momina mazaak mein kehti hai ke Emal har waqt kisi thriller novel ki heroine ki tarah sochti hai. Lekin jab Emal ko unknown number se pehle call, phir threatening message milta hai jisme likha hota hai:

"Turn around",

toh uska dar sach lagne lagta hai. Jab woh cabin mein jati hai toh achanak peeche se koi uska munh pakar leta hai, aur uski cheekh andar hi reh jati hai. Suspense aur danger ka intense moment create hota hai.

Teesri kahani Aeni aur Amaan ki hai. Amaan ne Aeni ko propose kiya hai lekin Aeni thodi confused hai. Jab Amaan usay call karta hai, toh dono ke darmiyan ek emotional aur honest guftagu hoti hai. Amaan kehta hai:

"Main tumhari aankhon mein apni jagah dekh chuka hoon… ab sirf is intezar mein hoon ke tum bhi woh jagah dekh sako."

Aur jab Aeni kehti hai ke agar usay der lagi toh? Amaan jawab deta hai:

"Toh phir main intezar kar sakta hoon… kyunki tumhari khushi mere liye sabse zaroori hai."

Ye scene pyar, respect, aur maturity se bhara hota hai.

Episode ke end mein phir Atish aur Meher ka cabin scene aata hai, jahan Atish Meher ke bheegne par naraz hota hai, lekin phir bhi uski fikar karta hai.

"Tumhari aik choti si laparwahi mujhe kitna bechain kar deti hai."

Ye lafz Atish ke emotions aur care ko deeply highlight karte hain.

More Chapters